خود کو ممتاز بنانے کی دلی خواہش میں
دشمن جاں سے ملی میری انا سازش میں
روح روشن نہ ہوئی اور نہ دل ہی بہلا
وقت برباد کیا جسم کی آرائش میں
آج معکوس ہے آئینۂ ایام جہاں
نیم میں رنگ حنا زور تپش بارش میں
خود کو منت کش قسمت نہ کرو دیدہ ورو
گلشن شوق اگانا ہے تمہیں آتش میں
دست بستہ ہے سحر شب کی اجازت کے لیے
اب کے خوددار طبیعت نہ رہی تابش میں
پستئ فکر و نظر وحشت اسرار و رموز
ہو رہا ہے بخدا جہل فزوں دانش میں
قبضۂ وقت میں جگنو ہے ستارہ کہ شرار
ہم فقیروں کا بھلا ہوگا نہ آلائش میں
باندھ لے اپنی گرہ میں یہ نصیحت راہیؔ
ضبط سے کام لے ناخن نہ بڑھا خارش میں
غزل
خود کو ممتاز بنانے کی دلی خواہش میں
راہی فدائی