خود دیکھ خودی کو او خود آرا
پہچان خدا کو بھی خدا را
ترچھی یہ نگاہ ہے کہ آرا
ہر جزو جگر ہے پارا پارا
دیکھیں گے بتوں کی ہم کجی کو
سیدھا ہے اگر خدا ہمارا
کیوں موت کے آسرے پہ جیتے
اے زیست ہمیں تو تو نے مارا
اللہ رے دل کی بے قراری
کھاتا ہی نہیں کہیں سہارا
جاں دینی ہے میری آزمائش
دل داری ہے امتحاں تمہارا
طوفان ہے جوش تشنہ کامی
دریا بھی تو کر گیا کنارا
شیرینیٔ جاں کی کب کھلی قدر
جب زہر ہوا ہمیں گوارا
ہر شاخ پہ آشیاں ہے لرزاں
اس باغ میں ہو چکا گزارا
گردش کا قلقؔ کی دیکھنا اوج
ہر قطرۂ خوں بنا ستارا
غزل
خود دیکھ خودی کو او خود آرا
غلام مولیٰ قلق