خود اپنی خواہشیں خاک بدن میں بونے کو
مرا وجود ترستا ہے میرے ہونے کو
یہ دیکھنا ہے کہ باری مری کب آئے گی
کھڑا ہوں ساحل دریا پہ لب بھگونے کو
ابھی سے کیا رکھیں آنکھوں پہ سارے دن کا حساب
ابھی تو رات پڑی ہے یہ بوجھ ڈھونے کو
نہ کوئی تکیۂ غم ہے نہ کوئی چادر خواب
ہمیں یہ کون سا بستر ملا ہے سونے کو
وہ دور تھا تو بہت حسرتیں تھیں پانے کی
وہ مل گیا ہے تو جی چاہتا ہے کھونے کو

غزل
خود اپنی خواہشیں خاک بدن میں بونے کو
سالم سلیم