کھوٹوں کو بھی کھرا بتانا پڑتا ہے
دنیا کا دستور نبھانا پڑتا ہے
اثر وقت کا چہرے پہ دکھلانے کو
آئنے کو آگے آنا پڑتا ہے
اپنی آنکھیں مریں نہ بھوکی اس خاطر
کچھ چہروں کو روز کمانا پڑتا ہے
جسم نگر کے پار جو کچی بستی ہے
اس کے آگے میرا ٹھکانا پڑتا ہے
میں میرا میں نے مجھ سے کہ چنگل سے
خود کو اکثر کھینچ کے لانا پڑتا ہے
اک چہرے کو چھونے کی خاطر فانیؔ
یادوں کا انبار لگانا پڑتا ہے

غزل
کھوٹوں کو بھی کھرا بتانا پڑتا ہے
فانی جودھپوری