کھوٹا تو کیا وہ نقد کھرا ہے کہ ہائے ہائے
وہ نا سرہ بھی آج سرا ہے کہ ہائے ہائے
کن مرحلوں میں قافلہ گم ہو کے رہ گیا
کس سمت سے صدائے درا ہے کہ ہائے ہائے
کیا لوگ ہیں یہ لوگ جہاں کیا جہاں ہے یہ
کیا کارواں ہے کیا یہ سرا ہے کہ ہائے ہائے
اڑتا ہے اس ہوا سے بقدر نفس جو ہے
تصویر میں وہ رنگ بھرا ہے کہ ہائے ہائے
نغمہ سنے تو جان کے نوحہ لرز اٹھے
کتنا یہ دل غموں سے ڈرا ہے کہ ہائے ہائے
کیا دل کا ساتھ تار رباب نشاط دیں
کس درد سے یہ نغمہ سرا ہے کہ ہائے ہائے
دوش وجود پر مرے اس زندگی کی لاش
کیا ناگوار بوجھ دھرا ہے کہ ہائے ہائے
بسملؔ کا رنج دل سے بھلایا نہ جائے گا
کس بیکسی کی موت مرا ہے کہ ہائے ہائے
غزل
کھوٹا تو کیا وہ نقد کھرا ہے کہ ہائے ہائے
بسمل سعیدی