کھوٹ کی مالا جھوٹ جٹائیں اپنے اپنے دھیان
اپنا اپنا مندر منبر اپنے رب بھگوان
گھر جانے کی کوئی دوجی راہ نکالی جائے
آن کے رہ میں بیٹھ گیا ہے اک جوگی انجان
زخمی سورج زہر میں بھیگی لو پیاسے پنچھی
ٹوٹی بکھری ہجر گلی میں کچھ شاخیں بے جان
اپنے دکھ کا گھونٹ گلا اور یار کے آنسو اوڑھ
ان آنکھوں کے درد سے بڑھ کر کیا ہوگا نقصان
سسکی کو بہلا لینا ہچکی کو سہلانا
عمر گنوا کر ملتا ہے یہ فن میرے نادان
خاموشی کی کٹھنائی میں چپ کی بپتا میں
اس آواز کا شہد گھلے تو مل جائے نروان
جانا دیکھ آنا کچھ رنگ ابھی بہتا ہوگا
شہر کے چوراہے میں کل اک خواب ہوا قربان
اونچے نیچے دائیں بائیں مٹی کے ٹیلے
آشاؤں کے سرد بدن بھیتر کا قبرستان
آیت آیت نور کا پیکر حرف حرف مہکار
دو سیمابؔ صفت ہونٹوں پر تھی سورہ رحمان
غزل
کھوٹ کی مالا جھوٹ جٹائیں اپنے اپنے دھیان
سیماب ظفر