خضر کیا ہم تو اس جینے میں بازی سب سے جیتے ہیں
دم اب اکتا گیا اللہ اکبر کب سے جیتے ہیں
سمجھ لے قاصدوں نے کچھ تو ایسی ہی خبر دی ہے
کہیں کیا تجھ سے اے ناصح کہ جس مطلب سے جیتے ہیں
کسی حالت نہ ہم سے بڑھ سکے گی رات فرقت کی
کہ ہم بازی سیہ بختی میں بھی اس شب سے جیتے ہیں
دم اپنا گھٹ کے کب کا ہجر جاناں میں نکل جاتا
مددگاریٔ شور نعرۂ یا رب سے جیتے ہیں
اسے باور کر اے غم خوار کب کے مر گئے ہوتے
پیام وصل جب سے سن لیا ہے تب سے جیتے ہیں
زباں قابو میں ہے سننے کو تشبیہیں سنے جاؤ
نزاکت میں کہاں اوراق گل اس لب سے جیتے ہیں
عبث دریافت کرتے ہو سبب اس سخت جانی کا
خدا جانے کہ ہم اے شادؔ کس مطلب سے جیتے ہیں
غزل
خضر کیا ہم تو اس جینے میں بازی سب سے جیتے ہیں
شاد عظیم آبادی