EN हिंदी
خضر کیا ہم تو اس جینے میں بازی سب سے جیتے ہیں | شیح شیری
KHizar kya hum to is jine mein bazi sab se jite hain

غزل

خضر کیا ہم تو اس جینے میں بازی سب سے جیتے ہیں

شاد عظیم آبادی

;

خضر کیا ہم تو اس جینے میں بازی سب سے جیتے ہیں
دم اب اکتا گیا اللہ اکبر کب سے جیتے ہیں

سمجھ لے قاصدوں نے کچھ تو ایسی ہی خبر دی ہے
کہیں کیا تجھ سے اے ناصح کہ جس مطلب سے جیتے ہیں

کسی حالت نہ ہم سے بڑھ سکے گی رات فرقت کی
کہ ہم بازی سیہ بختی میں بھی اس شب سے جیتے ہیں

دم اپنا گھٹ کے کب کا ہجر جاناں میں نکل جاتا
مددگاریٔ شور نعرۂ یا رب سے جیتے ہیں

اسے باور کر اے غم خوار کب کے مر گئے ہوتے
پیام وصل جب سے سن لیا ہے تب سے جیتے ہیں

زباں قابو میں ہے سننے کو تشبیہیں سنے جاؤ
نزاکت میں کہاں اوراق گل اس لب سے جیتے ہیں

عبث دریافت کرتے ہو سبب اس سخت جانی کا
خدا جانے کہ ہم اے شادؔ کس مطلب سے جیتے ہیں