خرد آموز ہستی ہے مگر اب کیا کہوں وہ بھی
کہ بن جاتی ہے دیوانوں کی دنیا میں جنوں وہ بھی
سوال اک بے مروت سے طلب ایسی کہ کیا کہئے
ہم اپنی زندگی سے مانگتے ہیں اور سکوں وہ بھی
بتوں کے ساتھ لی دی سی جو یاد اللہ باقی ہے
تو کیا شیخ حرم تیرے لیے میں چھوڑ دوں وہ بھی
ریاکاری کے سجدے شیخ لے بیٹھیں گے مسجد کو
کسی دن دیکھنا ہو کر رہے گی سرنگوں وہ بھی
دھرا کیا ہے جو ہم سے یاد ماضی لے کے جائے گی
جب آ جاتی ہے تو دو گھونٹ پی لیتی ہے خوں وہ بھی
گئے سب ولولے ساری امیدیں ہو گئیں رخصت
بچی ہے زندگی باقی تو اب میں کیا کروں وہ بھی
نرالی بات دنیائے دنی میں کون سی ہوتی
یہاں تو دیدنی ہے اور مرا حال زبوں وہ بھی
مصیبت زندگی کی کس کے گھر اب سر چھپائے گی
اجل اتنی اجازت دے کہ میں لیتا چلوں وہ بھی
محبت ہو تو ہو بھی جائے سر بر چشم پر فن سے
ابھی سے کیا کہوں ناطقؔ فسوں یہ بھی فسوں وہ بھی
غزل
خرد آموز ہستی ہے مگر اب کیا کہوں وہ بھی
ناطق گلاوٹھی