کھینچ کر تلوار جب ترک ستم گر رہ گیا
ہائے رے شوق شہادت میں تڑپ کر رہ گیا
ملتے ملتے رہ گئی آنکھ اس کی چشم مست سے
ہوتے ہوتے لب بہ لب ساغر سے ساغر رہ گیا
آپ ہی سے بے خبر کوئی رہا وعدہ کی شب
کیا خبر کس کی بغل میں کب وہ دلبر رہ گیا
لے لیا میں نے کنارہ شوق میں یوں دفعتاً
شوخیاں بھولا وہ خلوت میں جھجک کر رہ گیا
تجھ سے قاتل کہہ دیا تھا دل کا یہ ارمان ہے
دیکھ لے آخر مرے سینہ میں خنجر رہ گیا
مدتوں سے سینۂ بسمل ہے جس قاتل کا گھر
کیا ہوا دل میں اگر آج اس کا خنجر رہ گیا
چل دیئے ہوش و خرد تو میکشوں کے چل دیئے
رہ گیا ہاں میکدے میں دور ساغر رہ گیا
سخت خجلت ہوگی دیکھ اے شوق عریانی مجھے
آج اگر اک تار بھی باقی بدن پر رہ گیا
کون کہتا ہے مکان غیر پر تم کیوں رہ گئے
عرض تو یہ ہے کہ رستے میں مرا گھر رہ گیا
پارسائی شیخ صاحب کی دھری رہ جائے گی
دست ساقی میں اگر دم بھر بھی ساغر رہ گیا
جس کے آنے کی خوشی میں کل سے وارفتہ تھے تم
آج بھی آتے ہی آتے وہ ستم گر رہ گیا

غزل
کھینچ کر تلوار جب ترک ستم گر رہ گیا
انوری جہاں بیگم حجاب