کھڑکیاں سب بند کمروں اور دالانوں کے بیچ
بٹ گئے پریوار آخر سینکڑوں خانوں کے بیچ
مجھ کو دنیا جان لیتی تھی کسی کے نام ثے
واقعے گم ہو گئے ہیں جیسے افسانوں کے بیچ
میں ہوں چھوٹا تو بڑا ہوگا میں کیسے مان لوں
اب یہی چرچا ہے اپنوں اور بیگانوں کے بیچ
اک طرف ترک تعلق اک طرف ہے اس کی یاد
ہے کہاں آساں گزرنا ایسے طوفانوں کے بیچ
کھو دیا ہر شخص نے بینائی کا رد عمل
ایک چٹکی دھوپ ہی پھینکی تھی دیوانوں کے بیچ
غزل
کھڑکیاں سب بند کمروں اور دالانوں کے بیچ
مونی گوپال تپش