EN हिंदी
کھیتوں کے بیچ پھول کے بستر کے آس پاس | شیح شیری
kheton ke beach phul ke bistar ke aas-pas

غزل

کھیتوں کے بیچ پھول کے بستر کے آس پاس

مرغوب اثر فاطمی

;

کھیتوں کے بیچ پھول کے بستر کے آس پاس
موسم تو آ کے بیٹھ مرے گھر کے آس پاس

بے قید و بند کوندتی رنگین مچھلیاں
دیکھی ہیں میں نے گاؤں کے پوکھر کے آس پاس

یہ کیا ہوا کہ آج بہت تیز دھوپ ہے
سایہ ملا نہ شاخ تناور کے آس پاس

سرسوں کے کشت زار میں ایسا لگا کہ ہوں
فطرت کی چھینٹ دار سی چادر کے آس پاس

مجھ کو نہ سطح آب پہ کچھ بھی ملا اثرؔ
غوطہ لگا کے پہنچا ہوں گوہر کے آس پاس