خیال اسی کی طرف بار بار جاتا ہے
مرے سفر کی تھکن کون اتار جاتا ہے
یہ اس کا اپنا طریقہ ہے دان کرنے کا
وہ جس سے شرط لگاتا ہے ہار جاتا ہے
یہ کھیل میری سمجھ میں کبھی نہیں آیا
میں جیت جاتا ہوں بازی وہ مار جاتا ہے
میں اپنی نیند دواؤں سے قرض لیتا ہوں
یہ قرض خواب میں کوئی اتار جاتا ہے
نشہ بھی ہوتا ہے ہلکا سا زہر میں شامل
وہ جب بھی ملتا ہے اک ڈنک مار جاتا ہے
میں سب کے واسطے کرتا ہوں کچھ نہ کچھ نظمیؔ
جہاں جہاں بھی مرا اختیار جاتا ہے
غزل
خیال اسی کی طرف بار بار جاتا ہے
اختر نظمی