EN हिंदी
خیال و خواب سے نکلوں ظہور تک دیکھوں | شیح شیری
KHayal-o-KHwab se niklun zuhur tak dekhun

غزل

خیال و خواب سے نکلوں ظہور تک دیکھوں

خالد جمال

;

خیال و خواب سے نکلوں ظہور تک دیکھوں
سفر کے دائرے توڑوں عبور تک دیکھوں

مرے لیے ہیں یہ ہفت آسماں و ہفت زمیں
تو کس لیے ترے جلوے میں طور تک دیکھوں

سمجھ سکا ہوں تجھے بس شعور کی حد تک
یہ فکر ہے کہ تجھے لا شعور تک دیکھوں

رگیں چٹخ گئیں رشتوں کی شورشیں کیسی
صدا لہو کی جو آئے تو دور تک دیکھوں

الجھ نہ جاؤں کہیں ریشمی خیالوں میں
ترا جمالؔ پس رنگ و نور تک دیکھوں