خیال و خواب میں دیوار و در بھی ساتھ رکھو
مسافرت میں رہو اور گھر بھی ساتھ رکھو
عجب نہیں کہ شہادت طلب کرے منزل
کرو پڑاؤ تو گرد سفر بھی ساتھ رکھو
زر و گہر سے بھی بنتی ہیں قامتیں لیکن
کوئی سلیقۂ عرض ہنر بھی ساتھ رکھو
ہم ایسے لوگ پس گفتگو بھی جانتے ہیں
ہمیں ملو تو خلوص نظر بھی ساتھ رکھو
کچھ اس لیے بھی وہ سیلاب بھیج دیتا ہے
کہ بستیوں میں رہو اور کھنڈر بھی ساتھ رکھو
کڑی ہے دھوپ تو خوابوں میں ہی سہی رزمیؔ
ہری رتوں کے گھنیرے شجر بھی ساتھ رکھو
غزل
خیال و خواب میں دیوار و در بھی ساتھ رکھو
خادم رزمی