خطر ہوائے مخالف کا درمیان میں تھا
مگر پرندہ مگن اپنی ہی اڑان میں تھا
ہمارا جرم تو یکساں تھا پر گرفت کے بعد
وو شخص ہو کے نہ ہو میں تو امتحان میں تھا
ہمیں ہماری زباں میں سزا سنائی گئی
مگر قصور لکھا جانے کس زبان میں تھا
تمام شہر پے غالب تھا دھوپ کا لشکر
فصیل شہر کے باہر میں سائبان میں تھا
وطن پرستوں نے تاریخ ہی بدل ڈالی
نہیں تو ذکر ہمارا بھی داستان میں تھا
مع مسافر و ملاح ناؤ ڈوب گئی
نوازؔ نقص رکھا جیسے بادبان میں تھا
غزل
خطر ہوائے مخالف کا درمیان میں تھا
نواز عصیمی