خط میں کیا کیا لکھوں یاد آتی ہے ہر بات پہ بات
یہی بہتر کہ اٹھا رکھوں ملاقات پہ بات
رات کو کہتے ہیں کل بات کریں گے دن میں
دن گزر جائے تو سمجھو کہ گئی رات پہ بات
اپنی باتوں کے زمانے تو ہوا برد ہوئے
اب کیا کرتے ہیں ہم صورت حالات پہ بات
لوگ جب ملتے ہیں کہتے ہیں کوئی بات کرو
جیسے رکھی ہوئی ہوتی ہو مرے ہات پہ بات
مل نہ سکنے کے بہانے انہیں آتے ہیں بہت
ڈھونڈ لیتے ہیں کوئی ہم بھی ملاقات پہ بات
دوسروں کو بھی مزا سننے میں آئے باصرؔ
اپنے آنسو کی نہیں کیجئے برسات پہ بات
غزل
خط میں کیا کیا لکھوں یاد آتی ہے ہر بات پہ بات
باصر سلطان کاظمی