خالی شراب عشق سے ساغر کبھی نہ تھے
ایسے تو خشک دل کے سمندر کبھی نہ تھے
جو سنگ احتساب یگانوں کے پاس ہیں
دشمن کے ہاتھ میں بھی وہ پتھر کبھی نہ تھے
کس سمت جا رہے ہیں انہیں خود پتا نہیں
یوں بے خبر تو راہ سے رہبر کبھی نہ تھے
دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا زخمی ہے روح بھی
اتنے تو تیز وقت کے نشتر کبھی نہ تھے
ملتا نہیں کہیں بھی در و بام کا نشاں
ہم گھر میں رہ کے اتنے تو بے گھر کبھی نہ تھے
کیا جانیں کیا ہوئیں وہ حسیں شوخیاں حیاتؔ
ایسے نڈھال پھول سے پیکر کبھی نہ تھے

غزل
خالی شراب عشق سے ساغر کبھی نہ تھے
مسعودہ حیات