EN हिंदी
خالی شراب عشق سے ساغر کبھی نہ تھے | شیح شیری
Khaali sharab-e-ishq se saghar kabhi na the

غزل

خالی شراب عشق سے ساغر کبھی نہ تھے

مسعودہ حیات

;

خالی شراب عشق سے ساغر کبھی نہ تھے
ایسے تو خشک دل کے سمندر کبھی نہ تھے

جو سنگ احتساب یگانوں کے پاس ہیں
دشمن کے ہاتھ میں بھی وہ پتھر کبھی نہ تھے

کس سمت جا رہے ہیں انہیں خود پتا نہیں
یوں بے خبر تو راہ سے رہبر کبھی نہ تھے

دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا زخمی ہے روح بھی
اتنے تو تیز وقت کے نشتر کبھی نہ تھے

ملتا نہیں کہیں بھی در و بام کا نشاں
ہم گھر میں رہ کے اتنے تو بے گھر کبھی نہ تھے

کیا جانیں کیا ہوئیں وہ حسیں شوخیاں حیاتؔ
ایسے نڈھال پھول سے پیکر کبھی نہ تھے