EN हिंदी
خاک میں جب ملایا جاوں گا | شیح شیری
KHak mein jab milaya jaunga

غزل

خاک میں جب ملایا جاوں گا

وقاص عزیز

;

خاک میں جب ملایا جاوں گا
گوندھ کر پھر سے لایا جاوں گا

گر گیا ہوں تمہارے جوڑے سے
اب کہاں پر سجایا جاوں گا

ایک دیوار کی ہے وحشت دھوپ
اور میں سایا سایا جاوں گا

گھر کا مطلب بدلنے والا ہے
تیرے گھر میں بلایا جاوں گا

شہر سے عشق کرتا ہوں میں عزیزؔ
دشت میں کیوں بسایا جاوں گا