EN हिंदी
خاک بستہ ہیں تہ خاک سے باہر نہ ہوئے | شیح شیری
KHak-basta hain tah-e-KHak se bahar na hue

غزل

خاک بستہ ہیں تہ خاک سے باہر نہ ہوئے

سالم شجاع انصاری

;

خاک بستہ ہیں تہ خاک سے باہر نہ ہوئے
جسم اپنے کبھی پوشاک سے باہر نہ ہوئے

جرأت‌ بازوئے پیراک سے باہر نہ ہوئے
یہ سمندر مری املاک سے باہر نہ ہوئے

ذہن خفتہ نے ہمہ وقت سعی کی لیکن
فکر کے زاویے ادراک سے باہر نہ ہوئے

زخم دیتی ہے نیا روز مجھے بھوک مری
یہ مصائب مری خوراک سے باہر نہ ہوئے

زیر تکمیل ہیں دست فن کوزہ گر میں
ہم وہ ایجاد ہیں جو چاک سے باہر نہ ہوئے

شاخ پر ابھرے ہیں تابندہ گلوں کی صورت
جو شرارے خس و خاشاک سے باہر نہ ہوئے

کام آئی نہ کوئی وقت کی چارہ جوئی
زخم کہنہ دل صد چاک سے باہر نہ ہوئے

محو پرواز ہیں صدیوں سے یوں ہی شمس و قمر
یہ پرندے حد افلاک سے باہر نہ ہوئے

مصلحت کوش ہوئے وقت کے چہرے سالمؔ
عکس آئینۂ بے باک سے باہر نہ ہوئے