کون تنہائی کا احساس دلاتا ہے مجھے
یہ بھرا شہر بھی تنہا نظر آتا ہے مجھے
جانے کس موڑ پہ کھو جائے اندھیرے میں کہیں
وہ تو خود سایہ ہے جو راہ دکھاتا ہے مجھے
اس کی پلکوں سے ڈھلک جاؤں نہ آنسو بن کر
خواب کی طرح جو آنکھوں میں سجاتا ہے مجھے
عکس تا عکس بدل سکتی ہوں چہرہ میں بھی
میرا ماضی مگر آئینہ دکھاتا ہے مجھے
وہ بھی پہچان نہ پایا مجھے اپنوں کی طرح
پھول بھی کہتا ہے پتھر بھی بتاتا ہے مجھے
اجنبی لگنے لگا ہے مجھے گھر کا آنگن
کیا کوئی شہر نگاراں سے بلاتا ہے مجھے
کسی رت میں بھی مری آس نہ ٹوٹی ثروتؔ
ہر نیا جھونکا خلاؤں میں اڑاتا ہے مجھے

غزل
کون تنہائی کا احساس دلاتا ہے مجھے
نور جہاں ثروت