EN हिंदी
کون ان لاکھوں اداؤں میں مجھے پیاری نہیں | شیح شیری
kaun in lakhon adaon mein mujhe pyari nahin

غزل

کون ان لاکھوں اداؤں میں مجھے پیاری نہیں

ثاقب لکھنوی

;

کون ان لاکھوں اداؤں میں مجھے پیاری نہیں
نام لوں کس کس کا مجھ کو ایک بیماری نہیں

آگ کتنی لے کے نکلا تھا مرا دود جگر
وہ فضا ہے کون جس میں کوئی چنگاری نہیں

یاس سے کیوں دیکھتے ہیں دوست اے آزار دل
پوچھتے ہیں کیا مجھے تو کوئی بیماری نہیں

ہاتھ رکھ کر اک ذرا دیکھو تپ غم کا اثر
یہ تمہارا ہی جلایا دل ہے چنگاری نہیں

دل نے رگ رگ سے چھپا رکھا ہے تیرا راز عشق
جس کو کہہ دے نبض ایسی میری بیماری نہیں

قید ہو کر میں نے کھولی ہم صفیروں کی زباں
کس گلستاں میں مرا ذکر گرفتاری نہیں