کون ہوں کیوں زندہ ہوں سوچتا رہتا ہوں
خوابوں کی دنیا میں جاگتا رہتا ہوں
رنگ اور خوشبو سے دھندلائے رستوں میں
ہوا کی انگلی تھام کے چلتا رہتا ہوں
آوازوں کی گٹھری سر پہ اٹھائے ہوئے
خاموشی کے زینے چڑھتا رہتا ہوں
جہاں سے میرے جسم کو اک دن اگنا ہے
میں اس بانجھ زمین کو ڈھونڈھتا رہتا ہوں
آنکھوں کی عریانی سے چھپنے کے لیے
نئے نئے ملبوس پہنتا رہتا ہوں
صبح و شام ہوا کی اندھی لہروں میں
ذرہ ذرہ ہو کے بکھرتا رہتا ہوں
سوئی ہوئی راہوں میں تنہا چاند کے ساتھ
ساری ساری رات بھٹکتا رہتا ہوں
لوح جہاں پر بنتی بگڑتی تحریریں
دیکھتا رہتا ہوں اور سوچتا رہتا ہوں
جسم و جاں کی دھوپ سے جلتے صحرا میں
اپنا سایہ اوڑھ کے چلتا رہتا ہوں

غزل
کون ہوں کیوں زندہ ہوں سوچتا رہتا ہوں
نذیر قیصر