EN हिंदी
کون دنیا سے بادہ خوار اٹھا | شیح شیری
kaun duniya se baada-KHwar uTha

غزل

کون دنیا سے بادہ خوار اٹھا

شیخ علی بخش بیمار

;

کون دنیا سے بادہ خوار اٹھا
چشم تر ابر نو بہار اٹھا

کھا کے غش گر پڑے کھڑے بیٹھے
بیٹھ کر اس ادا سے یار اٹھا

آتش عشق دیکھ کر مالک
الاماں الاماں پکار اٹھا

درد تعظیم مرگ کو دل میں
شب فرقت ہزار بار اٹھا

جیتے جی دور آسمانی میں
نہ زمیں سے یہ خاکسار اٹھا

ابر رحمت نے دے دیا چھینٹا
بعد مرنے کے جب غبار اٹھا

وحشت دل نے پھر نکالے پاؤں
پھر تحمل کا اختیار اٹھا

پھر جنوں فصل گل میں لایا رنگ
پھر میں ہونے کو شرمسار اٹھا

حال بیمارؔ جائے رقت ہے
مرہم دل کا اعتبار اٹھا

چور زخم جگر میں بیٹھ گیا
چارہ گر ہو کے شرمسار اٹھا