کٹی پہاڑ سی شب انتظار کرتے ہوئے
ہوئی تمام سحر آہ سرد بھرتے ہوئے
تھے اس کے ہاتھ لہو میں ہمارے غرق مگر
ذرا بھی شرم نہ آئی اسے مکرتے ہوئے
ہوا چلی تو پریشاں ہوئے شجر اوراق
مگر نہ تھے وہ ہماری طرح بکھرتے ہوئے
کبھی ادھر سے جو گزریں تو یاد آتا ہے یہ
کہ اس کو دیکھتا تھا اس راہ سے گزرتے ہوئے
ہمیشہ سوچ میں ڈوبا ہوا وہ ہم کو ملا
کبھی تو دیکھتے فرخؔ کو ہم ابھرتے ہوئے
غزل
کٹی پہاڑ سی شب انتظار کرتے ہوئے
فرخ جعفری