کٹ چکی تھی یہ نظر سب سے بہت دن پہلے
میں نے دیکھا تھا تجھے اب سے بہت دن پہلے
آج تک گوش بر آواز ہوں سناٹے میں
حرف اترا تھا ترے لب سے بہت دن پہلے
میں نے مستی میں یہ پوچھا تھا کہ ہستی کیا ہے
رفتگان مے و مشرب سے بہت دن پہلے
مسلک عشق فقیروں نے کیا تھا آغاز
اے مبلغ ترے مذہب سے بہت دن پہلے
پھر کسی مے کدۂ حسن میں ویسی نہ ملی
جیسی پی تھی کسی خوش لب سے بہت دن پہلے
ایک شخص اور ملا تھا مجھے تیرے جیسا
تو نہ تھا ذہن میں جب، جب سے بہت دن پہلے
حضرت شیخ کا اک رند سے کیسا رشتہ
ہاں ملے تھے کسی مطلب سے بہت دن پہلے
کیا تری سادگیٔ طبع نئی شے ہے شعورؔ
لوگ چلتے تھے اسی ڈھب سے بہت دن پہلے
غزل
کٹ چکی تھی یہ نظر سب سے بہت دن پہلے
انور شعور