کرتے رہیں وابستہ ان سے چاہے جو افسانے لوگ
عشق میں رسوائی کی پروا کرتے ہیں کب دیوانے لوگ
کس کو صدائیں دیتا ہے تو شہر تمنا میں اے دل
کون یہاں ہے تیرا ساتھی سبھی تو ہیں بیگانے لوگ
کس کو سنائیں حال تباہی کس کو دکھائیں زخم جگر
دور ستم ہے رحم کہاں اب ظلم کے ہیں دیوانے لوگ
شیخ و برہمن کی باتوں میں دیر و حرم کے جھگڑے ہیں
چال میں ان کی پھر کیوں آئیں ہم جیسے مستانے لوگ
فیض جنوں سے جاگ اٹھا ہے آج مقدر صحرا کا
پھول کھلاتے ہیں اس میں بھی دیکھیے کچھ دیوانے لوگ
بچتے ہوئے سب سے آئے تھے محفل زنداں کی جانب
مل ہی گئے اف ہم کو یہاں بھی کچھ جانے پہچانے لوگ
اہل جنوں کے فیض سے کشفیؔ دنیا میں بیدار ہی ہے
بات پتے کی کہہ دیتے ہیں اکثر یہ دیوانے لوگ

غزل
کرتے رہیں وابستہ ان سے چاہے جو افسانے لوگ
کشفی لکھنؤی