کرتے ہوئے طواف خیالات یار میں
پھر آ گیا ہوں ضبط کی دنیا کے پار میں
دنیا کو دکھ رہی ہے تو زندہ دلی مری
پتھر پہ سر پٹکتا ہوا آبشار میں
چالاکیاں دھری کی دھری رہ گئیں مری
خوب اس کے آگے ہو رہا تھا ہوشیار میں
یوں تو ذرا سی بات ہے پر بات ہے بڑی
تو میرا غم گسار ترا غم گسار میں
کل تھا جو آج بھی وہی ترکشؔ پردیپ ہوں
دلی میں آ کے بھی نہیں بدلہ گنوار میں
غزل
کرتے ہوئے طواف خیالات یار میں
ترکش پردیپ