کروڑوں سال کا دیکھا ہوا تماشا ہے
یہ رقص زیست کہ بے قصد و بے ارادہ ہے
عجیب موج سبک سیر تھی ہوائے جہاں
گزر گئی تو کوئی نقش ہے نہ جادہ ہے
نشاط لمحہ کی وہ قیمتیں چکائی ہیں
کہ اب ذرا سی مسرت پہ دل لرزتا ہے
اکیلا میں ہی نہیں اے تماشہ گاہ جہاں
جو سب کو دیکھ رہا ہے وہ خود بھی تنہا ہے
اسی سے رشتۂ دل دل اسی رو گرداں
اسی کو ڈھونڈ رہا ہوں اسی سے جھگڑا ہے
غزل
کروڑوں سال کا دیکھا ہوا تماشا ہے
محمود ایاز