کرو نہ دیر جہاں میں جہاں سے آگے چلو
یہاں گمان خطر ہے قدم بڑھائے چلو
یہاں فریب نشیب و فراز اکثر ہے
خدا کے واسطے اتنا نہ منہ اٹھائے چلو
شکستہ پا ہوں کہیں ساتھ سے نہ رہ جاؤں
مجھے بھی ہاتھ ذرا دوستو لگائے چلو
ابھی تو حسن عمل کا زمانہ باقی ہے
وہاں کی بگڑی ہوئی کچھ یہیں بنائے چلو
ادھر ادھر کہیں بھر کر ترارہ جا نہ پڑے
سمند عمر رواں کو ذرا دبائے چلو
عدم میں ترسو گے درد جگر کو اے تسلیمؔ
جو ہو سکے کوئی سینہ پہ تیر کھائے چلو
غزل
کرو نہ دیر جہاں میں جہاں سے آگے چلو
امیر اللہ تسلیم