کرنا ہے زندگی جو قفس میں بسر مجھے
پھر کیوں نہ ہوں وبال مرے بال و پر مجھے
اللہ رے شوق دید جدھر دیکھتا ہوں میں
جز حسن دوست کچھ نہیں آتا نظر مجھے
ہوتا ہے کوئی دم میں چراغ حیات گل
شام فراق کیا ہو امید سحر مجھے
راہ طلب میں دورئ منزل کا غم نہیں
معلوم ہو چکا ہے مآل سفر مجھے
تقدیر کے لکھے کو مٹا دوں جبیں سے میں
قسمت سے مل تو جائے ترا سنگ در مجھے
بیٹھا ہوا قفس میں یہی سوچتا ہوں میں
لائی چمن سے کون کشش کھینچ کر مجھے
افسانہ زندگی کا نہ پوچھو کہ عشق میں
تکنی پڑی ہے راہ اجل عمر بھر مجھے
بربادیوں کا اپنی کوئی غم نہیں مگر
پائے گی پھر کہاں یہ تمہاری نظر مجھے
شعلہؔ خیال دوست سے غافل نہیں ہوں میں
منظور ہے جو چارۂ درد جگر مجھے

غزل
کرنا ہے زندگی جو قفس میں بسر مجھے
شعلہ کراروی