کنوارے آنسوؤں سے رات گھائل ہوتی رہتی ہے
ستارے جھڑتے رہتے ہیں ریہرسل ہوتی رہتی ہے
سیاسی مشق کر کے تم تو دلی لوٹ جاتے ہو
یہاں سہمے ہوئے لوگوں میں ہلچل ہوتی رہتی ہے
وہاں رکھے ہوئے مہرے برابر مرتے رہتے ہیں
ادھر کھیلی ہوئی بازی مکمل ہوتی رہتی ہے
میں سب کچھ بھول کے جانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں
مگر گزری ہوئی وہ رات پاگل ہوتی رہتی ہے
نہ جانے کیا خرابی آ گئی ہے میرے لہجے میں
نہ جانے کیوں مری آواز بوجھل ہوتی رہتی ہے
غزل
کنوارے آنسوؤں سے رات گھائل ہوتی رہتی ہے
احمد کمال پروازی