کم ستم کرنے میں قاتل سے نہیں دل میرا
میرے پہلو میں چھپا بیٹھا ہے قاتل میرا
وصل میں یوں مرے پہلو کو نہ پہلو سے دبا
ٹوٹ جائے نہ کہیں آبلۂ دل میرا
قتل ہونے نہ دیا اس کی نزاکت نے مجھے
رہ گیا اپنا سا منہ لے کے وہ قاتل میرا
ان کو نشہ ہے میں بے خود ہوں یہی ڈر ہے مجھے
وہ کہیں حال نہ پوچھیں سر محفل میرا
ہچکیاں آئیں دم نزع تو قاتل نے کہا
اب تو لیتا ہے مزے موت کے بسمل میرا
وقت آخر کوئی روتا ہے لپٹ کے مجھ سے
یہ عنایت ہے تو مرنا بھی ہے مشکل میرا
دیکھنا کوئی سر عرش سے تارا ٹوٹا
یا حسیں آنکھ سے ظالم کی گرا دل میرا
دست بستہ یہ کہو حضرت ساحرؔ سے وسیمؔ
آپ چاہیں تو کھلے عقدۂ مشکل میرا

غزل
کم ستم کرنے میں قاتل سے نہیں دل میرا
وسیم خیر آبادی