EN हिंदी
کل مرا تھا آج وہ بت غیر کا ہونے لگا | شیح شیری
kal mera tha aaj wo but ghair ka hone laga

غزل

کل مرا تھا آج وہ بت غیر کا ہونے لگا

امیر اللہ تسلیم

;

کل مرا تھا آج وہ بت غیر کا ہونے لگا
وائے قسمت دو ہی دن میں کیا سے کیا ہونے لگا

یاد میری آ گئی منہ پھیر کر رونے لگے
انجمن میں ان کی جب ذکر وفا ہونے لگا

ہائے کب اس نے نکالے اپنے پیکاں کھینچ کر
درد کی لذت سے جب دل آشنا ہونے لگا

آہ نے اتنی تو کی تاثیر پیدا شکر ہے
بام پر آنے لگے وہ سامنا ہونے لگا

بام پر جب تک وہ مہر حسن ہے سرگرم سیر
بھیڑ کیوں چھٹنے لگی کیوں راستا ہونے لگا

خوب رویا بیٹھ کر واماندگی کی جان کو
جب مری نظروں سے پنہاں قافلہ ہونے لگا

یہ بھی اے تسلیمؔ ہے برگشتہ بختی کا اثر
جب دوا کی ہم نے درد دل سوا ہونے لگا