EN हिंदी
کیسی زمیں سکون کہاں کا کہاں کی چھاؤں | شیح شیری
kaisi zamin sukun kahan ka kahan ki chhanw

غزل

کیسی زمیں سکون کہاں کا کہاں کی چھاؤں

ذیشان الٰہی

;

کیسی زمیں سکون کہاں کا کہاں کی چھاؤں
مجھ کو نگل گئی مرے نخل اماں کی چھانو

چھا جائے گی یقین کی ارض بسیط پر
ذہنوں میں پھیلتے ہوئے دود گماں کی چھاؤں

گہرائیوں نے مجھ کو ابھرنے نہیں دیا
رقصاں تھی سطح آب پہ اک بادباں کی چھاؤں

سورج کی مملکت میں غنیمت سمجھ اسے
سر سے گزر گئی ترے ابر رواں کی چھاؤں

ہم دھوپ کے سفر پہ مسلسل ہیں گامزن
کشکول چشم میں لیے اک سائباں کی چھاؤں