کیسی زمیں سکون کہاں کا کہاں کی چھاؤں
مجھ کو نگل گئی مرے نخل اماں کی چھانو
چھا جائے گی یقین کی ارض بسیط پر
ذہنوں میں پھیلتے ہوئے دود گماں کی چھاؤں
گہرائیوں نے مجھ کو ابھرنے نہیں دیا
رقصاں تھی سطح آب پہ اک بادباں کی چھاؤں
سورج کی مملکت میں غنیمت سمجھ اسے
سر سے گزر گئی ترے ابر رواں کی چھاؤں
ہم دھوپ کے سفر پہ مسلسل ہیں گامزن
کشکول چشم میں لیے اک سائباں کی چھاؤں
غزل
کیسی زمیں سکون کہاں کا کہاں کی چھاؤں
ذیشان الٰہی