کیسا تارا ٹوٹا مجھ میں
جھانک رہی ہے دنیا مجھ میں
کوئی پرانا شہر ہے جس کا
کھلتا ہے دروازہ مجھ میں
دیا جلا کے چھوڑ گیا ہے
کوئی اپنا سایا مجھ میں
بند ہوئی جاتی ہیں آنکھیں
کیسا منظر جاگا مجھ میں
آوازیں دیتا ہے مجھ کو
کوئی میرؔ کے جیسا مجھ میں
کوئی مجھ کو ڈھونڈھنے والا
بھول گیا ہے رستہ مجھ میں
خالی تھی گلدان میں ٹہنی
کھلا ہوا تھا شعلہ مجھ میں
برس رہی تھی بارش باہر
اور وہ بھیگ رہا تھا مجھ میں
اڑتا رہتا ہے راتوں کو
قیصرؔ کوئی پرندہ مجھ میں
غزل
کیسا تارا ٹوٹا مجھ میں
نذیر قیصر