کیف سرور و سوز کے قابل نہیں رہا
یہ اور دل ہے اب وہ مرا دل نہیں رہا
سینے میں موجزن نہیں طوفان آرزو
ٹکرائے کس سے موج کہ ساحل نہیں رہا
جو کچھ متاع دل تھی وہ سب ختم ہو گئی
اب کاروبار شوق کے قابل نہیں رہا
بزم طرب بساط مسرت فریب ہیں
میں عیش مستعار کا قائل نہیں رہا
کم مائیگی نے دل تجھے بے قدر کر دیا
دزد نگاہ ناز کے قابل نہیں رہا
جنس وفا کا دہر میں بازار گر گیا
جب عشق فیض حسن کا حامل نہیں رہا
اعلیٰ بھی ہوتے ہیں کبھی اسفل سے بہرہ ور
گل کیا کھلیں اگر کرم گل نہیں رہا
غزل
کیف سرور و سوز کے قابل نہیں رہا
ایس اے مہدی