EN हिंदी
کہنے کو یہاں جینے کا سامان بہت ہے | شیح شیری
kahne ko yahan jine ka saman bahut hai

غزل

کہنے کو یہاں جینے کا سامان بہت ہے

رشیدالظفر

;

کہنے کو یہاں جینے کا سامان بہت ہے
اک تو جو نہیں زندگی ویران بہت ہے

ملتا ہے سر راہ تو کتراتا ہے مجھ سے
اب اپنے کیے پہ وہ پشیمان بہت ہے

چہرے کے تأثر سے تو لگتا ہے کہ خوش ہے
گر روح میں جھانکو تو پریشان بہت ہے

پھینک آیا تھا وہ مجھ کو کسی اندھی گپھا میں
منزل پہ مجھے پا کے وہ حیران بہت ہے

سیتا ہے اگر تو تجھے پانا نہیں مشکل
تیرے لیے بس رام کا اک بان بہت ہے

اک حرف محبت ہی اثاثہ ہے ظفرؔ کا
ارزاں جو زمانے میں مری جان بہت ہے