کہیں یہ تسکین دل نہ دیکھی کہیں یہ آرام جاں نہ دیکھا
تمہارے در کی جو خاک پائی تو ہم نے سوئے جناں نہ دیکھا
بڑی چمک آفتاب میں تھی عجب دمک ماہتاب میں تھی
اچھال دی خاک دل جو ہم نے کسی کو پھر ضو فشاں نہ دیکھا
اگر مقدر کرے نہ یاری تو فرق کیا ہے کوئی جگہ ہو
چلو وہ قید قفس ہی دیکھی پھنکا ہوا آشیاں نہ دیکھا
بجا یہ فرمایا کوئی تجھ سا گدا مبرم نہیں جہاں میں
حضور میں نے بھی ساری دنیا میں آپ سا مہرباں نہ دیکھا
ہزار پھولوں میں دل کشی ہو بنائے گلشن ہے خار و خس پر
وہ کیا چمن ہے کہ جس چمن نے نشاط دور خزاں نہ دیکھا
اچھال کر کشتیٔ شکستہ کنارے موجوں نے پھینک دی ہے
بڑا ہی شہرہ تھا بحر غم کا پر اس کو بھی بے کراں نہ دیکھا
رکی رکی نبض ڈوبتا دل اکھڑتی سانسیں بھٹکتی آنکھیں
تمہارے ہی دیکھنے کے قابل تھا تم نے ہی یہ سماں نہ دیکھا
کبھی پرانے غموں کی سوزش کبھی نئی کش مکش کا کھٹکا
دل گرفتہ کو شادمانی میں بھی کبھی شادماں نہ دیکھا
ہزار کی تو نے ہرزہ گوئی مگر کہا مدعا نہ دل کا
جو سچ کہیں تو زمانے میں کیفؔ تجھ سا بھی بے زباں نہ دیکھا
غزل
کہیں یہ تسکین دل نہ دیکھی کہیں یہ آرام جاں نہ دیکھا
سرسوتی سرن کیف