کہیں تھا میں مجھے ہونا کہیں تھا
میں دریا تھا مگر صحرا نشیں تھا
شکست و ریخت کیسی فتح کیسی
کہ جب کوئی مقابل ہی نہیں تھا
ملے تھے ہم تو موسم ہنس دیئے تھے
جہاں جو بھی ملا خنداں جبیں تھا
سویرا تھا شب تیرہ کے آگے
جہاں دیوار تھی رستہ وہیں تھا
ملی منزل کسے کار وفا میں
مگر یہ راستہ کتنا حسیں تھا
جلو میں تشنگی آنکھوں میں ساحل
کہیں سینے میں صحرا جا گزیں تھا
غزل
کہیں تھا میں مجھے ہونا کہیں تھا
محمد احمد