کہیں کھو نہ جانا ذرا دور چل کے
مسافر تری تاک میں ہیں دھندلکے
مرا نیند سے آج جھگڑا ہوا ہے
سو لیتے ہیں دونوں ہی کروٹ بدل کے
اسی ڈر سے چلتا ہے ساحل کنارے
کہیں گر نہ جائے ندی میں پھسل کے
عجب بوجھ پلکوں پہ دن بھر رہا ہے
اگرچہ ترے خواب تھے ہلکے ہلکے
جتاتے رہے ہم سفر میں ہیں لیکن
بھٹکتے رہے اپنے گھر سے نکل کے
اندھیرے میں مبہم ہوا ہر نظارہ
ملی ایک دوجے میں ہر شے پگھل کے
زمانے سے سارے شرر چن لے آتشؔ
یہی تو عناصر ہیں تیری غزل کے
غزل
کہیں کھو نہ جانا ذرا دور چل کے
سوپنل تیواری