EN हिंदी
کہیں کہیں سے پر اسرار ہو لیا جائے | شیح شیری
kahin kahin se pur-asrar ho liya jae

غزل

کہیں کہیں سے پر اسرار ہو لیا جائے

غلام مرتضی راہی

;

کہیں کہیں سے پر اسرار ہو لیا جائے
کہ اپنے حق میں بھی ہموار ہو لیا جائے

وہ جس نے زخم لگائے رکھے گا مرہم بھی
اسی کا دل سے طرف دار ہو لیا جائے

یہی ہے نیند کا منشا کہ خواب غفلت سے
صحیح وقت پہ بیدار ہو لیا جائے

گرہ کشائی موج نفس بہانہ ہے
کہ اس بہانے سے اس پار ہو لیا جائے

کسی کی راہ میں آنے کی یہ بھی صورت ہے
کہ سایہ کے لیے دیوار ہو لیا جائے