کہیں گرفت نہیں کوئی استعارا نہیں
نواں فلک ہوں کہ جس پر کوئی ستارا نہیں
رکے منڈیر پہ کب طائران رنگ سدا
ثبات ہو جسے ایسا کوئی نظارا نہیں
الجھ رہا ہے مرا بخت پھر مرے دل سے
ہمارا کیسے ہے وہ شخص جو ہمارا نہیں
درائے سرحد عقل و خرد اگر ہے خلا
تو یہ نہ سمجھیں کہ اس بحر کا کنارا نہیں
ہم اہل دل تھے سو یہ حادثہ تو ہونا تھا
کہ عہد وہ بھی سہا ہے جسے گزارا نہیں

غزل
کہیں گرفت نہیں کوئی استعارا نہیں
نرجس افروز زیدی