EN हिंदी
کہی نہ ان سے جو ہونٹوں پہ بات آئی بھی | شیح شیری
kahi na un se jo honTon pe baat aai bhi

غزل

کہی نہ ان سے جو ہونٹوں پہ بات آئی بھی

جلیل حشمی

;

کہی نہ ان سے جو ہونٹوں پہ بات آئی بھی
کہ آشنائی بھی تھی شرم آشنائی بھی

کوئی طلب تھی تو دست سوال پھیلاتے
مگر ملی تھی کہاں صورت گدائی بھی

کہو ہوا سے چلے آج رات تھم تھم کر
کہ آگ ہے مرے دامن میں کچھ پرائی بھی

ترے کرم کے فسانے تو شہر بھر سے کہے
ترے ستم کی کہاں جا کے دیں دہائی بھی

تری صدا پہ گماں دھڑکنوں کا ہوتا تھا
عجب تھا اب کے سکوت شب جدائی بھی

تمہاری ہم سفری کے بھی تھے بہت احساں
ہوئی ہے وجہ ندامت شکستہ پائی بھی

نظر بجھی تو ملے روشنی کہاں حشمیؔ
جلا کے شمع بہت آنکھ سے لگائی بھی