کہیں ہم کیا کسی سے دل کی ویرانی نہیں جاتی
ہماری زندگی بھی ہم سے پہچانی نہیں جاتی
بظاہر ایسا لگتا ہے سبھی ہیں مست دنیا میں
مگر چہروں سے پوشیدہ پریشانی نہیں جاتی
روا داری کی چادر سے کہاں تک خود کو ڈھاپیں گے
کہ اس کم ظرف دنیا میں تو یہ تانی نہیں جاتی
بہت سمجھا لیا دل کو بچھڑنا تو مقدر تھا
نہ جانے کیوں مرے دل سے پشیمانی نہیں جاتی
بہت ہی لاڈلا ٹھہرا یہ مانا دل ہمارا ہے
مگر اب اس کی ہر اک بات تو مانی نہیں جاتی

غزل
کہیں ہم کیا کسی سے دل کی ویرانی نہیں جاتی
فرح اقبال