EN हिंदी
کہیں ہم کیا کسی سے دل کی ویرانی نہیں جاتی | شیح شیری
kahen hum kya kisi se dil ki virani nahin jati

غزل

کہیں ہم کیا کسی سے دل کی ویرانی نہیں جاتی

فرح اقبال

;

کہیں ہم کیا کسی سے دل کی ویرانی نہیں جاتی
ہماری زندگی بھی ہم سے پہچانی نہیں جاتی

بظاہر ایسا لگتا ہے سبھی ہیں مست دنیا میں
مگر چہروں سے پوشیدہ پریشانی نہیں جاتی

روا داری کی چادر سے کہاں تک خود کو ڈھاپیں گے
کہ اس کم ظرف دنیا میں تو یہ تانی نہیں جاتی

بہت سمجھا لیا دل کو بچھڑنا تو مقدر تھا
نہ جانے کیوں مرے دل سے پشیمانی نہیں جاتی

بہت ہی لاڈلا ٹھہرا یہ مانا دل ہمارا ہے
مگر اب اس کی ہر اک بات تو مانی نہیں جاتی