EN हिंदी
کہے دیتا ہوں گو ہے تو نہیں یہ بات کہنے کی | شیح شیری
kahe deta hun go hai to nahin ye baat kahne ki

غزل

کہے دیتا ہوں گو ہے تو نہیں یہ بات کہنے کی

عرفان ستار

;

کہے دیتا ہوں گو ہے تو نہیں یہ بات کہنے کی
تری خواہش نہیں دل میں زیادہ دیر رہنے کی

بچا کر دل گزرتا جا رہا ہوں ہر تعلق سے
کہاں اس آبلے کو تاب ہے اب چوٹ سہنے کی

رگ و پے میں نہ ہنگامہ کرے تو کیا کرے آخر
اجازت جب نہیں اس رنج کو آنکھوں سے بہنے کی

بس اپنی اپنی ترجیحات اپنی اپنی خواہش ہے
تجھے شہرت کمانے کی مجھے اک شعر کہنے کی

جہاں کا ہوں وہیں کی راس آئے گی فضا مجھ کو
یہ دنیا بھی بھلا کوئی جگہ ہے میرے رہنے کی

جو کل عرفانؔ پر گزری سنا کچھ اس کے بارے میں
خبر تم نے سنی طوفان میں دریا کے بہنے کی