EN हिंदी
کہاں یہ تاب کہ چکھ چکھ کے یا گرا کے پیوں | شیح شیری
kahan ye tab ki chakh chakh ke ya gira ke piyun

غزل

کہاں یہ تاب کہ چکھ چکھ کے یا گرا کے پیوں

شاد عظیم آبادی

;

کہاں یہ تاب کہ چکھ چکھ کے یا گرا کے پیوں
ملے بھرا ہوا ساغر تو ڈگڈگا کے پیوں

ہزار تلخ ہو پیر مغاں نے جب دی ہے
خدا نہ کردہ جو میں منہ بنا بنا کے پیوں

مزا ہے بادہ کشی کا وہیں تو اے ساقی
پیوں جو اب تو ترے آستاں پہ آ کے پیوں

بغیر جلوہ دکھائے رہے نہ یہ معشوق
جو سات پردے کے اندر اسے چھپا کے پیوں

میں وہ نہیں کہ خود اپنے قدح کی خیر مناؤں
پیوں تو بزم میں دس پانچ کو پلا کے پیوں

زمیں پہ جام کو رکھ دے ذرا ٹھہر ساقی
میں تجھ پہ ہوں لوں تصدق تو پھر اٹھا کے پیوں

وہ مے کدہ ہے نہ ساقی ہے کچھ نہ پوچھو شادؔ
میں کس کے گھر میں پیوں کس کے گھر سے لا کے پیوں