کہاں تلاش میں جاؤں کہ جستجو تو ہے
کہیں نہیں ہے یہاں اور چار سو تو ہے
محاذ جنگ پہ کھلتے نہیں ہیں ہاتھ مرے
میں کیا کروں کہ مقابل مرا عدو تو ہے
بدل گیا ہے زمانہ بدل گئی دنیا
نہ اب وہ میں ہوں مری جاں نہ اب وہ تو تو ہے
کسی نے اٹھ کے یہاں سے کہیں نہیں جانا
سجی ہے بزم کہ موضوع گفتگو تو ہے
میں دیکھتا ہوں کسے کچھ مجھے نہیں معلوم
کوئی بھی سامنے آ جائے ہو بہو تو ہے
تمام عالم سرمست ہے تری ایجاد
یہ مے کدہ ہے ترا صاحب سبو تو ہے
تری طلب نے رکھا انہماک پاکیزہ
نماز عشق ترے واسطے وضو تو ہے
مرا گناہ بھی شائستہ توکل ہے
کہ تو خدا ہے مرا اور خیر خو تو ہے
یہ آئنے میں کوئی اور شخص ہے عاصمؔ
غلط خیال ہے تیرا کہ رو بہ رو تو ہے
غزل
کہاں تلاش میں جاؤں کہ جستجو تو ہے
عاصمؔ واسطی