کہاں پہ لائی ہے میری خودی کہاں سے مجھے
نہ اپنے دل سے غرض ہے نہ اپنی جاں سے مجھے
نہ اس جہان سے نسبت نہ اس جہاں سے مجھے
بس ایک ربط ہے دنیائے بے نشاں سے مجھے
شعور زیست ملا فکر دو جہاں سے مجھے
متاع درد ملی دل کے آستاں سے مجھے
قرار جاں نہ بنی اپنی ہستئ موہوم
گلا یہی ہے تری عمر جاوداں سے مجھے
یہ ہو رہے ہیں سر عرش تذکرے کس کے
یہ کس نے آج بلایا ہے جسم و جاں سے مجھے
ذرا سنبھلنے تو دے اے جہان کم آثار
خود آگہی نے گرایا ہے آسماں سے مجھے
پیمبری کے عوض میں نے شاعری کی ہے
یہ حوصلہ تو ملا اس کے آستاں سے مجھے

غزل
کہاں پہ لائی ہے میری خودی کہاں سے مجھے
رفعت القاسمی