کہاں کسی کو دکھائی گئی ہے خاموشی
بغیر جسم بنائی گئی ہے خاموشی
تضاد یہ ہے بنا کر کھنکتی مٹی سے
مرے لہو میں ملائی گئی ہے خاموشی
بلا کا شور انڈیلا گیا ہے کانوں میں
مگر زباں کو سکھائی گئی ہے خاموشی
زمیں پہ اس کا گزارا نہیں تھا اس باعث
خلا کے بیچ بسائی گئی ہے خاموشی
کچھ اس لیے بھی ہوا شور بزم مے کہ انہیں
غزل بنا کے سنائی گئی ہے خاموشی

غزل
کہاں کسی کو دکھائی گئی ہے خاموشی
آصف رشید اسجد