EN हिंदी
کہاں کی گونج دل ناتواں میں رہتی ہے | شیح شیری
kahan ki gunj dil-e-na-tawan mein rahti hai

غزل

کہاں کی گونج دل ناتواں میں رہتی ہے

احمد مشتاق

;

کہاں کی گونج دل ناتواں میں رہتی ہے
کہ تھرتھری سی عجب جسم و جاں میں رہتی ہے

قدم قدم پہ وہی چشم و لب وہی گیسو
تمام عمر نظر امتحاں میں رہتی ہے

مزہ تو یہ ہے کہ وہ خود تو ہے نئے گھر میں
اور اس کی یاد پرانے مکاں میں رہتی ہے

پتہ تو فصل گل و لالہ کا نہیں معلوم
سنا ہے قرب و جوار خزاں میں رہتی ہے

میں کتنا وہم کروں لیکن اک شعاع یقیں
کہیں نواح دل بدگماں میں رہتی ہے

ہزار جان کھپاتا رہوں مگر پھر بھی
کمی سی کچھ مرے طرز بیاں میں رہتی ہے